Tuesday, February 1, 2011

taxtarea

Text area tast post

Sunday, April 11, 2010

Tuesday, February 16, 2010

thems

ایک نئے تھیم کا یہ تجربہ ہے۔

Wednesday, January 13, 2010

shor in facebook

شور کا قول ہے۔
جو پروگرام سمجھ میں نہ آئے۔ اُس کو دل لگا کر سمجھنے کی کوشش کرو۔
شور اپنے قول کا پابند ہے۔ اِسی لئے وہ آج کل فیس بک کے پیچھے ہاتھ دو کر پڑا ہوا ہے ۔ اگر موسم سرد نہ ہوتا تو وہ نہا دھو کر فیس بک کے پیچھے لگ جاتا۔ مگر کیا کیا جائے کہ سخت سردی ہے اسی لئے صرف ہاتھ دھوکر فیس بک کے پیچھے پڑ گیا۔شور کو فیس بک کے بارے میں سنا تو تھا کچھ دوستوں نے اِس کی بڑی تعریف بھی کی تھی۔ مگر شور نے فیس بک کے ساتھ زیادہ چیڑخانی نہیں کی تھی۔ ویسے اگر شور یہ اعتراف کرلے کے اُسے فیس بک کا زیادہ سمجھ میں نہیں آیا تو زیادہ بہتر ہے۔ فیس بک کا اک اکاؤنٹ بھی بنا چکا تھا۔ لیکن کبھی استعمال کرنے کا نہیں سوچا۔ پھر اک دن یونہی خیال آیا کہ چلو دیکھ لیتے کیا چیز ہے۔ فیس بک آخر اس میں کیا بات ہے۔ جو لوگ اِس کے دیوانے ہیں۔ فیس بک میں ایسا کیا ہے۔ جیسے شور سمجھنے میں قاصر ہے۔ پھر شور کو اپنا وہ مشہور قول یاد آیا جو پوسٹ کے شروع میں درج ہے۔ چند دنوں سے شور کا فیس بک میں ہاتھ پاؤں مارہا ہے۔ اِس سے شور کے ہاتھ میں کبھی کچھ آجاتا ہے۔ تو کبھی کچھ۔ آج شور کے ہاتھ میں اک خوبصورت قطعہ لگا۔ وہی قطعہ میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
یہ خوبصورت آئٹم اس لنک سے لیا ہے۔

جون ایلیا


Wednesday, January 6, 2010

shor is happy

آج کچھ بات ضرور ہے۔ جو شور بہت خوش ہے۔ کیوں۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرے سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ بس دل ہی دل میں
مسکرا رہا ہے۔ مجھے بھی کچھ نہیں بتا رہا ہے۔ ویسے مجھے نہیں لگتا کہ آج وہ کسی کو کچھ بتا نے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انتظار کیجئیے وہ چند دن بعد خود ہی مجھے بتا دے گا۔ اور میں آپ لوگوں کو بتا دونگاں۔ فلحال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شور بہت خوش ہے۔ اُسے خوش ہونے دیتے ہیں۔ اور ہم انتظار کرتے ہیں۔

shoes

جوتا یونہی تو جوتا نہیں بنتا۔ اُسے جوتا بننے کے لئے وقت اور حالات کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سارے مراحل سے گزرنا پڑتاہے۔ جب سارے مشکلات ختم ہوجاتے ہیں۔ تو اوروں کے لئے نہیں البتہ جوتے کے لئے نہیں مصیبتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ وہ بے چارہ انسان کے پیروں کے نیچے دبنے پہنچ جاتا ہے۔ اور انسان اُسے ہر وقت دبا کر رکھتا ہے۔ کیونکہ انسان کو پتا ہوتا ہے ۔ یہ جب تک دبا ہوا ہے۔ تب تک ٹھیک ہے۔ لیکن جونہی یہ ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ تو سر پر پڑنا لازمی ہے۔ اور انسان یہ دعا گو ہوتا ہے کہ جوتا سر پر پڑتے وقت کسی صف ِ نا زک کے ہاتھ میں نہ ہو۔ ورنہ دن میں تارے اور رات میں سورج آنکھوں کے سامنے جگمگانے لگتے ہیں۔ ویسے جوتے کہ اپنی تو کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن پرانے زمانے میں استاد کے جوتے سیدھے کرنا باعث ِ فکر ہوتا تھا۔ لیکن آج کل استاد کو جوتے دیکھانے کا رواج ہے۔ ویسے دو جگہ اُن کو چھپایا جانا بھی قابل ِ عمل ہوتا ہے۔ اک جگہ شادی میں۔ جو اس بات کا پیغام ہے ۔ کہ ابھی بھی وقت ہے بھاگ چل ورنہ بعد میں پچھتائے گا۔جب کہ دوسری جگہ مسجد جہاں اِن کو چھپایا یا چرایا جاتاہے ۔ تب یہ بہت یاد آتے ہیں۔ پیر ایک دم اپنے اوقات میں آجاتے ہیں۔ جوتے کو جوتا بنانے کا قصور کس کا ہے۔ یہ تو شاید کسی کو بھی پتا نہیں۔ البتہ جوتے کے قسمت کو بُرا کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان اپنے آپ کو تو بُرا نہیں کہہ سکتا۔

Tuesday, January 5, 2010

mobi2weet

موبی 2 ویٹ کے بارے میں شور کو ڈان نیوز سے پتا چلا۔ رجسٹر ہونے کے ٹوئیٹر یا فیس بک کا اکاؤنٹ ہونا ضروری تھا۔ شور کے پاس دنوں اکاؤنٹ تھے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دنوں جگہ رجسٹر ہونے کے بعد شور نے اُنھیں اب تک استمعال نہیں کیا تھا۔ شور کا ویسے بھی زیادہ وقت بلاگ یا چیٹ روم میں گزرتا ہے۔ اِس لئے اُس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ کہ اِن دونوں پر بھی ایک نظر ڈالے۔ شور دنوں کے پاسورڈ بھی بھول چکا تھا۔ چند دن پہلے اُسے اپنے فیس بک کا پاس ورڈ مل گیا۔ فیس بک میں اپلیکیشن میں موبی 2ویٹ والے اپلیکیشن کو رن کیا۔ وہاں اپنا فون نمبر دیا۔ اُس نے پن نمبر مانگا۔ شور نے اپنی جیبیں ٹٹولیں۔ فون کوجھنجوڑا۔ ای میل کو نھچوڑا۔ لیکن پن نمبر نہ ملا۔ اگلے دن شام کو موبائل فون پر ایک نئے نمبر سے ایک ایس ایم ایس مل گیا۔ یہ لیجئیے جناب پن نمبر۔ رات کو نیٹ آن کر کے پن نمبر انٹر کیا ۔ تو رجسٹریشن کی مبارک باد موصول ہوا۔ اب موبی 2 ویٹ پر لاگ اِن ہونے کے لئے شور کا موبائل نمبر اور وہی پن کوڈ انٹر کرنا ہے۔ بہت مشکل سے اور خدا خدا کر کے شور نے آخر کار موبی2ویٹ پر اپنے آپ کو رجسٹر کر لیا۔ ویسے ایک بات کہوں شور کے سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا ہے۔ کہ اَس کو کس طرح استعمال کرے۔ خیر اندھے کی لاٹھی آخر کب کام آئے گا۔ کہیں نہ کہیں تو لگ ہی جائے گا۔